بیٹی رحمت ہے
پیارے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیاں پائی اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی تو وہ دونوں اسے جنت میں داخل کروائیں گی اور دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں تین لڑکیاں ہوں اس گھر میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اسلام نے ہر باپ کو مزاج عطا کیا ہے کہ جب بازار سے کوئی کھانے پینے کی چیز لاؤ تو پہلے لڑکی کو دو بعد میں لڑکے کو دو، کیونکہ لڑکی کا دل نرم و نازک ہوتا ہے۔ یہ امر مبنی برحقیقت ہے کہ دنیائے کے تمام مذاہب و ادیان کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا مذہب سوائے مذہب اسلام کے نہیں ہے جس نے بیٹی کے بارے میں عمدہ فکر و مزاج، عزت و وقار اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمگساری کا جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے صرف ان کو سپرد خاک ہونے سے بچایا ہی نہیں بلکہ عالم رنگ و بو کی زینت قرار دے دیا اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کو جنت میں جانے اور دیگر اخروی نعمتوں سے شاد کام ہونے کا ذریعہ قرار دیا۔ لٰہذا بیٹیوں کی خاطرداری دل جوئی زیادہ کریں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ ارشاد نبوی ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو پھر وہ اس کو زندہ دفن نہ کرے نہ ہی اس کو ذلیل سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر اہمیت دے تو اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل کرے گا۔ (ابو داؤد شریف)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا۔ (مسلم شریف)
بخاری و ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اپنی لڑکیوں کو پیار و محبت سے پرورش کریں گے تو وہ بچیاں بروز محشر جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جب تم اپنے بچوں میں کوئی چیز تقسیم کرو تو لڑکیوں سے شروع کرو کیونکہ لڑکوں کے مقابل میں لڑکیاں والدین سے زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔
عورت حاملہ ہونے کے بعد یہ تمنا کرے کہ لڑکا پیدا ہو اگر لڑکی پیدا ہو جائے تو اس کو زحمت نہ سمجھے، چہرہ افسردہ نہ کرے دل کو غمزدہ نہ کرے، حسرت و افسوس کے باعث اپنی ہتھیلی نہ ملے، ناامیدی و مایوسی کا چراغ نہ جلائے، یہ کسی مسلمان عورت کیلئے مناسب نہیں ہے۔
بلکہ خدا کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس عظیم نعمت سے نواز دیا ہے۔ اور اس کی گود بھر دی ہے اس کے خاموش آنگن میں رنگت بھرنے والی بچی آ چکی ہے، جو اس کے لئے رحمت بن کر آئی ہے اپنا رزق اپنے ساتھ لیکر آئی ہے، یہ تو خدا وندقدوس کے قبضہ و قدرت میں ہے جس کو چاہے بیٹا دے جس کو چاہے بیٹی دے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
یھب لم یشاء اناثا ویھب لمن یشاء الذکور
وہی شکم مادر ہیں صورت گری کا حکم دیتا ہے اس کی قدرت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے ا سکی عطا کردہ نعمت پر شکر ادا کرے سینے سے لگائے اس کو پیار و محبت کی نظر سے دیکھے، اس کی تعلیم و تربیت کا پرخاص توجہ دے تاکہ وہ سرمایہء آخرت بننے اور جنت میں جانے کا سامان فراہم ہو، اس کو زحمت خیال کرنا اور اس کی پیدائش پر غمزدہ ہو جانا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے جو کفار کا طریقہ کار ہوتا ہے، معاشرے میں پھیلی ہوئی ایسی بیماری ہے جس کی کڑی دور جاہلیت سے ملتی ہے دین اسلام سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ عرب کے ابو حمزہ نامی آدمی نے ایک عورت سے شادی کی وہ لڑکے کے خواہش مند تھے لیکن ان کے یہاں لڑکی پیدا ہو گئی تو انہوں نے اپنی بیوی کے پاس آنا جانا چھوڑ دیا اور دوسرے مکان میں رہنا چھوڑ دیا۔ ایک سال کے بعد جب اس بیوی کے گھر کے پاس گزر ہوا دیکھا کہ وہ اپنی بچی سے دل لگی کر رہی ہے اور اشعار گنگنا رہی ہے بیوی کے اشعار کو سن کر ابو حمزہ اتنے متاثر ہوئے کے فوراً اس کے گھر گئے بیوی اور بچی کے سر کا بوسہ لیا اور اللہ تعالٰی نے بیٹی کی شکل میں جو عطیہ عطا کیا تھا اس پر خوشی و رضامندی کا اظہار کیا۔
لٰہذا کسی مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت اس کی شان نہیں ہے کہ وہ لڑکیوں کو برا سمجھے بلکہ لڑکیاں پیدا ہونا خوش قسمتی اور سعادت مندی خیال کریں اسی وجہ سے سورہ الشورٰی کے موافق امام وائلہ بن الاشع رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں بیوی کی سعادت اور نیک بختی میں سے ہے کہ اس کے یہاں پہلے بچی پیدا ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں پہلے لڑکیوں کا تذکرہ کیا اور لڑکوں کا تذکرہ بعد میں فرمایا۔
امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بیٹے صالح فرماتے ہیں کہ جب بھی ہمارے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو فرماتے یہ بڑی خوشی کی بات ہے اس لئے کہ انبیائے کرام کو اکثر لڑکیوں کے باپ ہوا کرتے تھے خود ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں