Monday, June 6, 2011

بیٹی رحمت ہے



بیٹی رحمت ہے

پیارے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیاں پائی اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی تو وہ دونوں اسے جنت میں داخل کروائیں گی اور دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں تین لڑکیاں ہوں اس گھر میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اسلام نے ہر باپ کو مزاج عطا کیا ہے کہ جب بازار سے کوئی کھانے پینے کی چیز لاؤ تو پہلے لڑکی کو دو بعد میں لڑکے کو دو، کیونکہ لڑکی کا دل نرم و نازک ہوتا ہے۔ یہ امر مبنی برحقیقت ہے کہ دنیائے کے تمام مذاہب و ادیان کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا مذہب سوائے مذہب اسلام کے نہیں ہے جس نے بیٹی کے بارے میں عمدہ فکر و مزاج، عزت و وقار اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمگساری کا جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے صرف ان کو سپرد خاک ہونے سے بچایا ہی نہیں بلکہ عالم رنگ و بو کی زینت قرار دے دیا اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کو جنت میں جانے اور دیگر اخروی نعمتوں سے شاد کام ہونے کا ذریعہ قرار دیا۔ لٰہذا بیٹیوں کی خاطرداری دل جوئی زیادہ کریں۔


حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ ارشاد نبوی ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو پھر وہ اس کو زندہ دفن نہ کرے نہ ہی اس کو ذلیل سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر اہمیت دے تو اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل کرے گا۔ (ابو داؤد شریف)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا۔ (مسلم شریف)

بخاری و ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اپنی لڑکیوں کو پیار و محبت سے پرورش کریں گے تو وہ بچیاں بروز محشر جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جب تم اپنے بچوں میں کوئی چیز تقسیم کرو تو لڑکیوں سے شروع کرو کیونکہ لڑکوں کے مقابل میں لڑکیاں والدین سے زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔

عورت حاملہ ہونے کے بعد یہ تمنا کرے کہ لڑکا پیدا ہو اگر لڑکی پیدا ہو جائے تو اس کو زحمت نہ سمجھے، چہرہ افسردہ نہ کرے دل کو غمزدہ نہ کرے، حسرت و افسوس کے باعث اپنی ہتھیلی نہ ملے، ناامیدی و مایوسی کا چراغ نہ جلائے، یہ کسی مسلمان عورت کیلئے مناسب نہیں ہے۔

بلکہ خدا کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس عظیم نعمت سے نواز دیا ہے۔ اور اس کی گود بھر دی ہے اس کے خاموش آنگن میں رنگت بھرنے والی بچی آ چکی ہے، جو اس کے لئے رحمت بن کر آئی ہے اپنا رزق اپنے ساتھ لیکر آئی ہے، یہ تو خدا وندقدوس کے قبضہ و قدرت میں ہے جس کو چاہے بیٹا دے جس کو چاہے بیٹی دے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

یھب لم یشاء اناثا ویھب لمن یشاء الذکور

وہی شکم مادر ہیں صورت گری کا حکم دیتا ہے اس کی قدرت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے ا سکی عطا کردہ نعمت پر شکر ادا کرے سینے سے لگائے اس کو پیار و محبت کی نظر سے دیکھے، اس کی تعلیم و تربیت کا پرخاص توجہ دے تاکہ وہ سرمایہء آخرت بننے اور جنت میں جانے کا سامان فراہم ہو، اس کو زحمت خیال کرنا اور اس کی پیدائش پر غمزدہ ہو جانا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے جو کفار کا طریقہ کار ہوتا ہے، معاشرے میں پھیلی ہوئی ایسی بیماری ہے جس کی کڑی دور جاہلیت سے ملتی ہے دین اسلام سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ عرب کے ابو حمزہ نامی آدمی نے ایک عورت سے شادی کی وہ لڑکے کے خواہش مند تھے لیکن ان کے یہاں لڑکی پیدا ہو گئی تو انہوں نے اپنی بیوی کے پاس آنا جانا چھوڑ دیا اور دوسرے مکان میں رہنا چھوڑ دیا۔ ایک سال کے بعد جب اس بیوی کے گھر کے پاس گزر ہوا دیکھا کہ وہ اپنی بچی سے دل لگی کر رہی ہے اور اشعار گنگنا رہی ہے بیوی کے اشعار کو سن کر ابو حمزہ اتنے متاثر ہوئے کے فوراً اس کے گھر گئے بیوی اور بچی کے سر کا بوسہ لیا اور اللہ تعالٰی نے بیٹی کی شکل میں جو عطیہ عطا کیا تھا اس پر خوشی و رضامندی کا اظہار کیا۔

لٰہذا کسی مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت اس کی شان نہیں ہے کہ وہ لڑکیوں کو برا سمجھے بلکہ لڑکیاں پیدا ہونا خوش قسمتی اور سعادت مندی خیال کریں اسی وجہ سے سورہ الشورٰی کے موافق امام وائلہ بن الاشع رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں بیوی کی سعادت اور نیک بختی میں سے ہے کہ اس کے یہاں پہلے بچی پیدا ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں پہلے لڑکیوں کا تذکرہ کیا اور لڑکوں کا تذکرہ بعد میں فرمایا۔

امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بیٹے صالح فرماتے ہیں کہ جب بھی ہمارے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو فرماتے یہ بڑی خوشی کی بات ہے اس لئے کہ انبیائے کرام کو اکثر لڑکیوں کے باپ ہوا کرتے تھے خود ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں

لڑکیوں کے انتخاب کا شرعی معیار



لڑکیوں کے انتخاب کا شرعی معیار

اسلام نے دینداری وحسن سیرت کو رشتوں کے انتخاب کےلئے معیار قرار دیا ہے ، بخاری ومسلم میں حدیث پاک ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چار چیزو ں کی بنیاد پر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے:

(1) اس کے مال کی بنا پر


(2)اس کے خاندان کی بنا پر


(3)اس کے حسن وجمال کی بنا پر
 
   (4)اس کی دینداری کی بنا پر                                                                             
                                                                                            
تو تم دیندار کو اختیار کرو اگر ایسا نہ کرو گے تو تم خیر سے محروم رہ جاؤگے-

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتوں کے لئے دینداری کو معیار قرار دیا کیونکہ مال ودولت مستقل رہنے والے نہیں ہے اور حسن وجمال بھی ہمیشہ رہنے وال نہیں ،حسن ایک ڈھلتی چھاؤ ہے،دولت ایک جھٹکے میں ختم ہوجاتی ہے ،دراصل دینداری وحسن سیرت ہی ہمیشہ فائدہ دینے والی دولت ہے جس سے دنیا وآخرت میں راحت وسکون ملتا ہے ، ماں باپ دیندار ہوں تو بچوں کی صحیح تربیت ہوتی اور ان کی زندگیوں میں برکتیں آتی ہیں-

حدیث شریف کی یہ مراد نہیں کہ دولت مند اورعزت دارگھرانے کی یا صاحب حسن وجمال لڑکی کا رشتہ نہ کیا جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ مال ودولت حسن وجمال، خاندان وبرادری کو معیار نہ بنایا جائے بلکہ حسن سیرت وبلندی اخلاق ،پرہیزگاری وخداترسی کومعیار بنائیں-البتہ دینداری اور حسن اخلاق کے ساتھ معزز گھرانے کی اور حسن وجمال والی لڑکی ہو تو ٹھیک ہے-

موجودہ دورمیں ازدواجی زندگي کے اندر جو بگاڑ پیدا ہورہا ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دینداری کو چھوڑ کر مال ودولت اور ظاہری حسن کو معیار بنا بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے کئی لڑکیاں سنگین مسائل کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں،ہمیں ان مسائل کے تدارک کی طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ معاشرتی زندگی خوشگوار ہو اور امت مسلمہ کے درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو-

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندۂ مؤمن کے حق میں تقوی الہی کے بعد سب سے بہتر چیز جس سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے نیک بیوی ہے،جب وہ اسے حکم دیتا ہے تو اسکی اطاعت کرتی ہے ،جب اس کو دیکھتا ہے تو وہ اس کو خوش کردیتی ہے ،جب وہ کسی کام کے لئے اس کو قسم دیتا ہے تو اس کو پورا کردیتی ہے،اور جب وہ دور جاتا ہے تو یہ اپنے نفس اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرتی ہے -

جو لوگ دینداری اور حسن سیرت کو چھوڑ کر محض حسن وجمال ،خاندان اور مال ودولت کو معیار بناتے ہیں ان کے حق میں سخت وعید آئی ہے چنانچہ معجم طبرانی میں حدیث پاک ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی خاتون سے نکاح اس کی عزت کی بنا پر کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی ذلت وخواری میں اضافہ کرتاہے ،اور جو شخص اس کے مال کی بنیاد پر نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی غربت وتنگدستی میں اضافہ کرتا ہے ، اور جو شخص اس کے خاندان کی بنیاد پر(دینداری اور حسن سیرت کو صرف نظر کرکے) نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حقارت وخواری میں اضافہ کرتا ہے ، اور جو شخص کسی خاتون سے نکاح محض اس لئے کرے کہ اپنی نگاہ کو نیچی رکھے اور اپنی عزت وآبرو کی حفاظت اور اس کی قرابت کے باعث دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اللہ تعالی اس شخص کے لئے اس خاتون میں برکت عطا فرماتا ہے اور اس خاتون کے لئے اس شخص میں برکت عطا فرماتاہے-

صحیح مسلم شریف میں حدیث شریف ہے کہ دنیا فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور سب سے بہتر چیز جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے وہ نیک عورت ہے -


لڑکیوں کے رشتہ کے انتخاب میں جس طرح معیار حسن سیرت ، دینداری اور پرہیزگاری ہے اسی طرح لڑکوں میں بھی ان کی دینداری اور حسن سیرت رشتہ کے انتخاب کا معیار ہے،چنانچہ جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیام نکاح بھیجے جس کی دینداری اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا رشتہ کرادو ورنہ زمین میں فتنہ ہوگا اور بڑے بڑے فسادات ہونگے-

اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےان ارشادات کی بنا پر اپنی صاحبزادیوں کا نکاح متقی وپرہیز گار سیاہ فام غلاموں کے ساتھ کرانے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کیا،اللہ نے ان کی نسلوں میں برکتیں رکھی-

دینداری اور حسن اخلاق کو معیار نہ بنانے اوراسے پس پشت ڈالنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج لڑکیاں اور لڑکے بے شادی کے بیٹھے ہوئے ہیں،کہیں تو لڑکیوں کے جہیز کا مسئلہ ہے تو کہیں لڑکوں کے ولیمہ کے اخرجات کا مسئلہ ،بے حیائیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ،فحاشی وعریانی عام ہے ،نت نئی بیماریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں،سنن ابن ماجہ میں حدیث شریف ہے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جب کسی قوم میں فحاشی اور عریانیت علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی نت نئی بیماریا ں پیدا ہوجاتی ہیں جن کا پہلے لوگوں نے نام بھی نہیں سنا تھا -

از:حضرت ضیاء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ