Monday, June 6, 2011

بیٹی رحمت ہے



بیٹی رحمت ہے

پیارے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیاں پائی اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی تو وہ دونوں اسے جنت میں داخل کروائیں گی اور دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں تین لڑکیاں ہوں اس گھر میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اسلام نے ہر باپ کو مزاج عطا کیا ہے کہ جب بازار سے کوئی کھانے پینے کی چیز لاؤ تو پہلے لڑکی کو دو بعد میں لڑکے کو دو، کیونکہ لڑکی کا دل نرم و نازک ہوتا ہے۔ یہ امر مبنی برحقیقت ہے کہ دنیائے کے تمام مذاہب و ادیان کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا مذہب سوائے مذہب اسلام کے نہیں ہے جس نے بیٹی کے بارے میں عمدہ فکر و مزاج، عزت و وقار اور ان کے ساتھ ہمدردی و غمگساری کا جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے صرف ان کو سپرد خاک ہونے سے بچایا ہی نہیں بلکہ عالم رنگ و بو کی زینت قرار دے دیا اور ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کو جنت میں جانے اور دیگر اخروی نعمتوں سے شاد کام ہونے کا ذریعہ قرار دیا۔ لٰہذا بیٹیوں کی خاطرداری دل جوئی زیادہ کریں۔


حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ ارشاد نبوی ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو پھر وہ اس کو زندہ دفن نہ کرے نہ ہی اس کو ذلیل سمجھے اور نہ ہی لڑکے کو اس پر اہمیت دے تو اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل کرے گا۔ (ابو داؤد شریف)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے پھر آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا۔ (مسلم شریف)

بخاری و ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ اپنی لڑکیوں کو پیار و محبت سے پرورش کریں گے تو وہ بچیاں بروز محشر جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جب تم اپنے بچوں میں کوئی چیز تقسیم کرو تو لڑکیوں سے شروع کرو کیونکہ لڑکوں کے مقابل میں لڑکیاں والدین سے زیادہ محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔

عورت حاملہ ہونے کے بعد یہ تمنا کرے کہ لڑکا پیدا ہو اگر لڑکی پیدا ہو جائے تو اس کو زحمت نہ سمجھے، چہرہ افسردہ نہ کرے دل کو غمزدہ نہ کرے، حسرت و افسوس کے باعث اپنی ہتھیلی نہ ملے، ناامیدی و مایوسی کا چراغ نہ جلائے، یہ کسی مسلمان عورت کیلئے مناسب نہیں ہے۔

بلکہ خدا کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس عظیم نعمت سے نواز دیا ہے۔ اور اس کی گود بھر دی ہے اس کے خاموش آنگن میں رنگت بھرنے والی بچی آ چکی ہے، جو اس کے لئے رحمت بن کر آئی ہے اپنا رزق اپنے ساتھ لیکر آئی ہے، یہ تو خدا وندقدوس کے قبضہ و قدرت میں ہے جس کو چاہے بیٹا دے جس کو چاہے بیٹی دے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

یھب لم یشاء اناثا ویھب لمن یشاء الذکور

وہی شکم مادر ہیں صورت گری کا حکم دیتا ہے اس کی قدرت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے ا سکی عطا کردہ نعمت پر شکر ادا کرے سینے سے لگائے اس کو پیار و محبت کی نظر سے دیکھے، اس کی تعلیم و تربیت کا پرخاص توجہ دے تاکہ وہ سرمایہء آخرت بننے اور جنت میں جانے کا سامان فراہم ہو، اس کو زحمت خیال کرنا اور اس کی پیدائش پر غمزدہ ہو جانا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے جو کفار کا طریقہ کار ہوتا ہے، معاشرے میں پھیلی ہوئی ایسی بیماری ہے جس کی کڑی دور جاہلیت سے ملتی ہے دین اسلام سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ عرب کے ابو حمزہ نامی آدمی نے ایک عورت سے شادی کی وہ لڑکے کے خواہش مند تھے لیکن ان کے یہاں لڑکی پیدا ہو گئی تو انہوں نے اپنی بیوی کے پاس آنا جانا چھوڑ دیا اور دوسرے مکان میں رہنا چھوڑ دیا۔ ایک سال کے بعد جب اس بیوی کے گھر کے پاس گزر ہوا دیکھا کہ وہ اپنی بچی سے دل لگی کر رہی ہے اور اشعار گنگنا رہی ہے بیوی کے اشعار کو سن کر ابو حمزہ اتنے متاثر ہوئے کے فوراً اس کے گھر گئے بیوی اور بچی کے سر کا بوسہ لیا اور اللہ تعالٰی نے بیٹی کی شکل میں جو عطیہ عطا کیا تھا اس پر خوشی و رضامندی کا اظہار کیا۔

لٰہذا کسی مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت اس کی شان نہیں ہے کہ وہ لڑکیوں کو برا سمجھے بلکہ لڑکیاں پیدا ہونا خوش قسمتی اور سعادت مندی خیال کریں اسی وجہ سے سورہ الشورٰی کے موافق امام وائلہ بن الاشع رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں بیوی کی سعادت اور نیک بختی میں سے ہے کہ اس کے یہاں پہلے بچی پیدا ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں پہلے لڑکیوں کا تذکرہ کیا اور لڑکوں کا تذکرہ بعد میں فرمایا۔

امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بیٹے صالح فرماتے ہیں کہ جب بھی ہمارے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو فرماتے یہ بڑی خوشی کی بات ہے اس لئے کہ انبیائے کرام کو اکثر لڑکیوں کے باپ ہوا کرتے تھے خود ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں

لڑکیوں کے انتخاب کا شرعی معیار



لڑکیوں کے انتخاب کا شرعی معیار

اسلام نے دینداری وحسن سیرت کو رشتوں کے انتخاب کےلئے معیار قرار دیا ہے ، بخاری ومسلم میں حدیث پاک ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چار چیزو ں کی بنیاد پر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے:

(1) اس کے مال کی بنا پر


(2)اس کے خاندان کی بنا پر


(3)اس کے حسن وجمال کی بنا پر
 
   (4)اس کی دینداری کی بنا پر                                                                             
                                                                                            
تو تم دیندار کو اختیار کرو اگر ایسا نہ کرو گے تو تم خیر سے محروم رہ جاؤگے-

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتوں کے لئے دینداری کو معیار قرار دیا کیونکہ مال ودولت مستقل رہنے والے نہیں ہے اور حسن وجمال بھی ہمیشہ رہنے وال نہیں ،حسن ایک ڈھلتی چھاؤ ہے،دولت ایک جھٹکے میں ختم ہوجاتی ہے ،دراصل دینداری وحسن سیرت ہی ہمیشہ فائدہ دینے والی دولت ہے جس سے دنیا وآخرت میں راحت وسکون ملتا ہے ، ماں باپ دیندار ہوں تو بچوں کی صحیح تربیت ہوتی اور ان کی زندگیوں میں برکتیں آتی ہیں-

حدیث شریف کی یہ مراد نہیں کہ دولت مند اورعزت دارگھرانے کی یا صاحب حسن وجمال لڑکی کا رشتہ نہ کیا جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ مال ودولت حسن وجمال، خاندان وبرادری کو معیار نہ بنایا جائے بلکہ حسن سیرت وبلندی اخلاق ،پرہیزگاری وخداترسی کومعیار بنائیں-البتہ دینداری اور حسن اخلاق کے ساتھ معزز گھرانے کی اور حسن وجمال والی لڑکی ہو تو ٹھیک ہے-

موجودہ دورمیں ازدواجی زندگي کے اندر جو بگاڑ پیدا ہورہا ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دینداری کو چھوڑ کر مال ودولت اور ظاہری حسن کو معیار بنا بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے کئی لڑکیاں سنگین مسائل کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں،ہمیں ان مسائل کے تدارک کی طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ معاشرتی زندگی خوشگوار ہو اور امت مسلمہ کے درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو-

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندۂ مؤمن کے حق میں تقوی الہی کے بعد سب سے بہتر چیز جس سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے نیک بیوی ہے،جب وہ اسے حکم دیتا ہے تو اسکی اطاعت کرتی ہے ،جب اس کو دیکھتا ہے تو وہ اس کو خوش کردیتی ہے ،جب وہ کسی کام کے لئے اس کو قسم دیتا ہے تو اس کو پورا کردیتی ہے،اور جب وہ دور جاتا ہے تو یہ اپنے نفس اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرتی ہے -

جو لوگ دینداری اور حسن سیرت کو چھوڑ کر محض حسن وجمال ،خاندان اور مال ودولت کو معیار بناتے ہیں ان کے حق میں سخت وعید آئی ہے چنانچہ معجم طبرانی میں حدیث پاک ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی خاتون سے نکاح اس کی عزت کی بنا پر کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی ذلت وخواری میں اضافہ کرتاہے ،اور جو شخص اس کے مال کی بنیاد پر نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی غربت وتنگدستی میں اضافہ کرتا ہے ، اور جو شخص اس کے خاندان کی بنیاد پر(دینداری اور حسن سیرت کو صرف نظر کرکے) نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حقارت وخواری میں اضافہ کرتا ہے ، اور جو شخص کسی خاتون سے نکاح محض اس لئے کرے کہ اپنی نگاہ کو نیچی رکھے اور اپنی عزت وآبرو کی حفاظت اور اس کی قرابت کے باعث دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اللہ تعالی اس شخص کے لئے اس خاتون میں برکت عطا فرماتا ہے اور اس خاتون کے لئے اس شخص میں برکت عطا فرماتاہے-

صحیح مسلم شریف میں حدیث شریف ہے کہ دنیا فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور سب سے بہتر چیز جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے وہ نیک عورت ہے -


لڑکیوں کے رشتہ کے انتخاب میں جس طرح معیار حسن سیرت ، دینداری اور پرہیزگاری ہے اسی طرح لڑکوں میں بھی ان کی دینداری اور حسن سیرت رشتہ کے انتخاب کا معیار ہے،چنانچہ جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیام نکاح بھیجے جس کی دینداری اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا رشتہ کرادو ورنہ زمین میں فتنہ ہوگا اور بڑے بڑے فسادات ہونگے-

اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےان ارشادات کی بنا پر اپنی صاحبزادیوں کا نکاح متقی وپرہیز گار سیاہ فام غلاموں کے ساتھ کرانے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کیا،اللہ نے ان کی نسلوں میں برکتیں رکھی-

دینداری اور حسن اخلاق کو معیار نہ بنانے اوراسے پس پشت ڈالنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج لڑکیاں اور لڑکے بے شادی کے بیٹھے ہوئے ہیں،کہیں تو لڑکیوں کے جہیز کا مسئلہ ہے تو کہیں لڑکوں کے ولیمہ کے اخرجات کا مسئلہ ،بے حیائیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ،فحاشی وعریانی عام ہے ،نت نئی بیماریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں،سنن ابن ماجہ میں حدیث شریف ہے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جب کسی قوم میں فحاشی اور عریانیت علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی نت نئی بیماریا ں پیدا ہوجاتی ہیں جن کا پہلے لوگوں نے نام بھی نہیں سنا تھا -

از:حضرت ضیاء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ




Friday, May 27, 2011

نور شریعت کورس

طالبات کیلے چھٹیوں سے فائدہ اٹھانے کا ایک بہترین موقع 

 نور شریعت کورس
مدت کورس ۲ماہ
کلاسز کا آغاز مئ ۲۷سے ہوگا
پلات نمبر ٦٠/٣ مقبول آباد نزد دارلعلوم امجدیہ
کراچی
 

Wednesday, May 18, 2011

محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصلاح اعمال کا پیغام

                                        بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

کائنات ہست وبود میں خدا تعالیٰ نے بے حدو حساب عنایات واحسانات فرمائے ہیں۔ انسان پر لاتعداد انعامات و مہربانیاں فرمائی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ فرماتا رہے گا کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے۔
 
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہزاروں نعمتیں دیں لیکن کبھی کسی پر احسان نہیں جتلایا، اس ذات رؤف الرحیم نے ہمیں پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور احسنِ تقویم کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائک بنایا ہمیں ماں باپ، بہن بھائی اور بچوں جیسی نعمتوں سے نوازا۔ غرضیکہ ہزاروں ایسی عنایات جو ہمارے تصور سے ماورا ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں لیکن بطور خاص کسی نعمت اور احسان کا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ اسے کوئی مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنے احسان کو نہیں جتلاتا۔

لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جب حریم کبریائی سے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سے سرفراز کیاتواس پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا۔
(سورۃ آل عمران 3 : 164)

ترجمہ : ’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘

درج بالا آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :

امت مسلمہ پر میرا یہ احسان، انعام اور لطف وکرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری ہی جانوں میں سے تمہارے لئے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدلنے، بگڑے ہوئے حالات سنوارنے اور شرف وتکریم سے نوازنے کیلئے تاکہ تمہیں ذلت وگمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عظمت وشرفِ انسانیت سے ہمکنار کر دیا جائے۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانہ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع واقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بھی عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدرومنزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے لگے۔

اب یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا فرض ہے کہ وہ ساری عمر اس نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے اور خوشی منائے جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے۔

(یونس10 : 58)


ترجمہ : ’’آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل سے اس کی رحمت سے (جو اُن پر نازل ہوئی) اس پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ تو ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بڑھ کر ہے‘‘۔
Allah Almighty has showered His unfathomable blessings and virtues on man in this world for his spiritual, physical mantel and intellectual growth and betterment. He would continue this practice to the end as He is the Benevolent and the compassionate.
Allah Almighty has blessed us with His thousands of blessings and bounties but it is not His practice to mention them to make us realize his blessings .He has crowned us raising to status of the best of His Creation and craft. He has also crafted us in such a magnificent way that we become a fancy for the angels and other spiritual creatures. He has tied us in beautiful relations like father, mother, son and daughter, husband and wife. In a nutshell he has given his thousands of blessings that are far valuable and magnificent even our imagination cannot grasp their strength and value.
But he has not mentioned his blessings to express His benevolence because he is charitable whether someone recognizes His majesty or not, He blessed everyone with his compassion and mercy. He also does not mention his acts of benevolence he extends to the people.
But there is one supreme blessing that He showered upon the mankind and he sent His Beloved to the people of all the ages and times. When he blessed the people with that virtue and compassion, he tells them with forceful emphasis.
He says in the Holy Quran,

O

(سورۃ آل عمران 3 : 164)
ترجمہ : ’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔
Verily Allah Almighty has done a supreme act of benevolence when He raised His Beloved as a Prophet to them selecting him among them, the one who recites His Verses Upon them, makes them free of all sort of corruption, teaches them His Book and wisdom, though they had been wandering in pitch of darkness.”
Allah Says in the above mention verse,
It is my special act of benevolence, compassion and favour upon the people that I have raised my Beloved to them, so that He would mould your destiny; change the worse circumstances that have gripped the people badly, and raise them to the highest esteem and honour.
O people Beware! That there is not any other greater blessing in my possession than that I have blessed you with my Beloved for whom I have created the whole world , beautified it with flashing stars, trembling lakes, cool breeze.
It does not suit me to mention my blessings upon you but it is necessary doing so lest you should become indifferent to it as you had been to the other blessings and recognize its importance and worth.
Now it is obligatory upon the people to remain thankful to Allah Almighty constantly by expressing their joy and happiness on the supreme act of compassion and favour Allah Almighty has extended to them.
As Allah Almighty says in the Holy Quran,


(یونس10 : 58)
ترجمہ : ’’آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل سے اس کی رحمت سے (جو اُن پر نازل ہوئی) اس پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ تو ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بڑھ کر ہے‘‘۔
(O my Beloved) tell them that they should be happy upon the compassion and benevolence of Allah Almighty which he extended to them and spend something from their wealth they possess and own.

Saturday, May 14, 2011

حقوق نسواں کے نعرے اور اس کی حقيقت


                       حقوق نسواں کے نعرے

                         اور  اس  کی   حقيقت




مارچ کو دنيا بھرميں يوم خواتين منايا جاتا ہےيہ مغرب کا عطيہ ہے جس کو پاکستان ميں بھي سينے سے لگايا جاتا ہے اس امر سے قطع نظرکہ خواتين کے حقوق و آزادي کے نعروں اور عنوانات کے تحت مغرب سے اٹھنے والي تحريک آزادي نسواں نے خواتين کے معاشرتي و ديگر مسائل کا حقيقي حل کس حد تک ممکن بناياہے‘ يہ حقيقت تسليم شدہ ہے کہ اس تحريک اورگلوبلائزيشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تناظر ميں خواتين کے عالمي دن کي اہميت پہلے کے مقابلے ميں کئي گنا بڑھ چکي ہے? يہ تحريک‘ جو اب تہذيب مغرب کا لازمي جزو بن چکي ہي‘ اس کے عالم آشکارا اغراض ومقاصد يہ ہيں کہ عورت کو زندگي کے ہر شعبے ميں وہي حقوق و آزاداياں حاصل ہوں جو مرد کو حاصل ہيں دفتروں اور کارخانوں کي ملازمت‘ تجارتي و صنعتي سرگرميوں اور ديگر تفريحي مشاغل ميں خواتين کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا حق حاصل ہو معاشرہ مساوات مرد و زن کے بنيادي اصول پر استوار ہو بظاہر خوشنما اور دلفريب منشور اور ايجنڈے کي حامل اس تحريک کا دعوي? ہے کہ عورت کو اس کے اصل حقوق اسي تحريک اور جديد تہذيب نے ديے ہيں مگر تجزيہ کياجائے تو اسي تحريک کے نتائج يہ ہيں کہ آج مغرب کي عورت کا دامن نسائيت کي پاکيزگي‘ عصمت و عفت‘حقيقي احساس تحفظ‘ امن و سکون ‘ احترام و وقار اور پائيدار مسرتوں سے خالي ہے? خواتين کي آزادي و بے باکي اس حدتک پہنچ چکي ہے کہ شرم وحيا اور عفت و پاکيزگي اس کے نزديک بے معني الفاظ کي حيثيت رکھتے ہيں? مغربي معاشرے کي اخلاقي ساکھ تباہي کے دہانے پر ہے اور خود صحيح الفکر مغربي مفکرين اور دانشور برملا اپني تحريروں ميں اس مادرپدر آزادي پر کڑي تنقيد کر رہے ہيں? درحقيقت ہرشعبہ زندگي ميں خواتين کو مردوں سے مسابقت کا موقع دے کر مغرب کي سرمايہ دارانہ ذہنيت نے اپنے ليے معاشي فوائد اور مادي ترقي کي راہيں ڈھونڈے کي کوشش کي ? ايک طرف تو اس ذہنيت نے عورت کو گھرکي چارديواري کے امن وسکون سے باہر نکال کر فيکٹريوں اور کارخانوں ميں لاکھڑا کيا اور يوں افرادي قوت ميں اضافے کے ذريعے بے مثال معاشي فوائد حاصل کيے? دوسري طرف ميڈيا کي دنيا ميں عورت کے حسن و جمال کو اپنے ليے ”کميوڈيٹي “ کے طور پر استعمال کيا? دونوں راستوں کے ذريعے مغرب کے سرمايہ دارطبقے نے اپني مادي ترقي کو بام عروج تک پہنچاديا? اس تحيرخيز ترقي اور چکاند نے ديگر ممالک کو بھي اپني جانب راغب کيا? اور يوں چند ہي سالوں ميں مغرب کي يہ مادي ترقي اور سرمايہ دارانہ ذہنيت اپني تمام ترحشرسامانيوں سميت پوري دنيا ميں پھيل گئي عالمي تجارتي کمپنيوں نے پاکستان سميت ديگر ترقي پذير ممالک کي حکومتوں کو معاشي ترقي کا جھانسہ دے کر خواتين سے متعلق اپنے ايجنڈے کو بھرپور طاقت دي? اخلاقي و معاشرتي تباہي جيسے سنگين مسائل سے صرف نظرکرنے کا نتيجہ يہ ہوا کہ آج پاکستان سميت ديگر ممالک ميں سماجي‘ سياسي‘ معاشي ہرسطح پر خواتين کا استحصال عروج پرپہنچا ہوا دکھائي ديتا ہے? سرکاري و بين الاقوامي سرپرستي ميں ميڈيا جس طريقے سے خواتين کے کردار کي تذليل اور ان کي حيثيت کو مسخ کررہا ہے? اس نے خواتين کے ليے ہرسطح پرناخوشگوار ماحول پيدا کرديا ہے? اس ضمن ميں ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان کي محض يہ رپورٹ ہي آنکھيں کھول دينے کے ليے کافي ہے کہ ”خواتين کے ساتھ پيش آنے والے واقعات کے پيچھے کمزور عدالتي نظام‘ کرپٹ پوليس يا مجرموں کي سرکاري و سماجي سرپرستي سے زيادہ اصل وجہ ميڈيا کے ذريعے خواتين کي بے جانمود و نمائش اور ان کو”اشيائے تجارت“ کے طور پر پيش کيے جانے کي پاليسي ہي“? (سالانہ رپورٹ 2005ئ) اس رپورٹ سے با آساني اندازہ کيا جاسکتا ہے کہ خواتين کے ساتھ ہونے والے استحصال اور معاشرتي ناانصافيوں کي اہم وجہ ميڈيا کي غير اخلاقي پاليسي ہے اور اسي پاليسي کا نتيجہ ہے کہ خواتين کے حقيقي مسائل‘ جن ميں سب سے اہم عدم تحفظ کا احساس ہے‘ پس پشت ڈال ديے گئے ہيں اگرچہ حکومتي سطح پر خواتين کي فلاح و بہبود کے ضمن ميں بے شمار دعوے کيے جاتے رہے ہيں جن ميں سرفہرست پارليمنٹ ميں خواتين کي موثر نمائندگي اور حقوق نسواں پر مبني قوانين کي منظوري و نفاذ جيسے اقدامات شامل ہيں موجودہ حکومت بھي خواتين کي ترقي کو اپنے منشورکا اہم جزو قرار ديتي ہے? توجہ طلب امر يہ کہ موجودہ پارليمنٹ پہلي خاتون اسپيکر کے ساتھ ساتھ ملکي تاريخ ميں اب تک خواتين کي سب سے زيادہ نمائندگي کرنے والي پارليمنٹ ہے مگر اس کے باوجود ملک بھر ميں خواتين کے خلاف جبر و تشدد کے واقعات ميں روزبروز اضافہ ايک لمحہ فکريہ ہےعافيہ صديقي‘ تسليم سولنگي ارو ماريہ شاہ جيسے اندوہناک سانحات کے باوجود اس ضمن ميں کسي قسم کي عدم پيشرفت نہ صرف موجودہ خواتين ارکان پارليمنٹ کي کارکردگي پرسواليہ نشان ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ يہ احساس بھي پيدا ہوا ہے کہ حقوق نسواں کے قوانين اور پارليمنٹ ميں خواتين کي موجودگي جيسے اقدامات (جو در اصل ترقي نسواں کي مغربي تحريک سے مرعوبيت کے تحت عمل ميں لائے گئے ہيں) محض نمائشي اور مصنوعي ہيں اور يہ خواتين کو ان کا بنيادي حق‘ يعني معاشرتي احساس تحفظ‘ دينے ميں بھي ممدو و معاون ثابت نہيں ہوسکے.


امر واقعہ يہ ہے کہ مغرب کي تحريک برائے حقوق نسواں کے اثرات‘ جو پوري دنيا ميں ملاحظہ کيے جاسکتے ہيں‘ يہ حقيقت کھول دينے کے ليے کافي ہيں کہ يہ تحريک خواتين کو ان کاحقيقي معاشرتي مقام و مرتبہ دينے ميں نہ صرف يہ کہ نا کام ہے بلکہ اس نے آج کي عورت سے اس کي اصل حيثيت چھين کر اسے بيچ چوراہے ميں لاکھڑا کيا ہے? پاکستان سميت تمام تر اسلامي حکومتوں اور ديگر معاشرتي طبقات کو اس حقيقت کا ادراک کرلينا چاہيے کہ عورت کے اصل حقوق ‘ شخصي آزادي‘ حيثيت و مرتبے اور عفت و عصمت کا حقيقي محافظ مغربي نظام نہيں بلکہ وہ اسلامي نظام ہے جس نے 14 سو سال قبل بھي عورت کا دامن حقيقي احساس تحفظ‘ امن وسکون اور دائمي راحتوں سے بھرديا تھا اور آج بھي يہي نظام عورت کو اس کا اصل مرتبہ اورحقوق دينے کي مکمل اہليت اور صلاحيت رکھتا ہے? لہ?ذا يہ ضروري ہے کہ حقوق نسواں کے ليے اٹھائے جانے والے اقدامات مغربي ايجنڈے کے تحت کرنے کے بجائے اسلامي اقدار و روايات سرفہرست رکھ کرکيے جائيں? سب سے پہلے قدم کے طور پر ميڈيا کے ذريعے خواتين کے استحصال کي بيخ کني ہو? تعليم و صحت ‘ وراثت اور حق ملکيت جيسے ديگر حقوق جو اسلامي شريعت نے عورت کو عطاکيے في الواقع عورت کو يہ حقوق دے کر اس کي اہميت کا احترام کياجائے? محض اسي صورت ميں خواتين کے ساتھ ہونے والي معاشرتي ناانصافيوں‘ زيادتيوں‘ سماجي تعصبات اور مشکلات کاحل ممکن ہے.


المرسله : صبیحه سجاد رضوی کلکتوی

Thursday, May 5, 2011

علوم اسلامیہ کورس( براے خواتین ) مضامین :

 علوم اسلامیہ کورس( براے  خواتین )
مضامین :
     ترجمہ و تفسیر القران ، حدیث  نبوی، عربی لینگوج ، عربی گرامر، علم فقہ 

                            ٹائمنگ  صبح  ٩ سے ١٢:٣٠  
بمقام:
 
  پلات نمبر   ٦٠/٣   مقبول آباد  نزد  دارلعلوم  امجدیہ    
 

Wednesday, May 4, 2011


In the name of Allah the Beneficent the Merciful



And command the Muslim women to keep their gaze low and to protect their chastity, and not to reveal their adornment except what is apparent, and to keep the cover wrapped over their bosoms; and not to reveal their adornment except to their own husbands or fathers or husbands’ fathers, or their sons or their husbands’ sons, or their brothers or their brothers’ sons or sisters’ sons, or women of their religion, or the bondwomen they possess, or male servants provided they do not have manliness, or such children who do not know of women’s nakedness, and not to stamp their feet on the ground in order that their hidden adornment be known; and O Muslims, all of you turn in repentance together towards Allah, in the hope of attaining success. (It is incumbent upon women to cover themselves properly.)


اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی ملک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگھار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو!سب کے سب اس امید 

 پر کہ تم فلاح پاؤ
(Sura # 24 ayah #31)