Saturday, May 14, 2011

حقوق نسواں کے نعرے اور اس کی حقيقت


                       حقوق نسواں کے نعرے

                         اور  اس  کی   حقيقت




مارچ کو دنيا بھرميں يوم خواتين منايا جاتا ہےيہ مغرب کا عطيہ ہے جس کو پاکستان ميں بھي سينے سے لگايا جاتا ہے اس امر سے قطع نظرکہ خواتين کے حقوق و آزادي کے نعروں اور عنوانات کے تحت مغرب سے اٹھنے والي تحريک آزادي نسواں نے خواتين کے معاشرتي و ديگر مسائل کا حقيقي حل کس حد تک ممکن بناياہے‘ يہ حقيقت تسليم شدہ ہے کہ اس تحريک اورگلوبلائزيشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تناظر ميں خواتين کے عالمي دن کي اہميت پہلے کے مقابلے ميں کئي گنا بڑھ چکي ہے? يہ تحريک‘ جو اب تہذيب مغرب کا لازمي جزو بن چکي ہي‘ اس کے عالم آشکارا اغراض ومقاصد يہ ہيں کہ عورت کو زندگي کے ہر شعبے ميں وہي حقوق و آزاداياں حاصل ہوں جو مرد کو حاصل ہيں دفتروں اور کارخانوں کي ملازمت‘ تجارتي و صنعتي سرگرميوں اور ديگر تفريحي مشاغل ميں خواتين کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا حق حاصل ہو معاشرہ مساوات مرد و زن کے بنيادي اصول پر استوار ہو بظاہر خوشنما اور دلفريب منشور اور ايجنڈے کي حامل اس تحريک کا دعوي? ہے کہ عورت کو اس کے اصل حقوق اسي تحريک اور جديد تہذيب نے ديے ہيں مگر تجزيہ کياجائے تو اسي تحريک کے نتائج يہ ہيں کہ آج مغرب کي عورت کا دامن نسائيت کي پاکيزگي‘ عصمت و عفت‘حقيقي احساس تحفظ‘ امن و سکون ‘ احترام و وقار اور پائيدار مسرتوں سے خالي ہے? خواتين کي آزادي و بے باکي اس حدتک پہنچ چکي ہے کہ شرم وحيا اور عفت و پاکيزگي اس کے نزديک بے معني الفاظ کي حيثيت رکھتے ہيں? مغربي معاشرے کي اخلاقي ساکھ تباہي کے دہانے پر ہے اور خود صحيح الفکر مغربي مفکرين اور دانشور برملا اپني تحريروں ميں اس مادرپدر آزادي پر کڑي تنقيد کر رہے ہيں? درحقيقت ہرشعبہ زندگي ميں خواتين کو مردوں سے مسابقت کا موقع دے کر مغرب کي سرمايہ دارانہ ذہنيت نے اپنے ليے معاشي فوائد اور مادي ترقي کي راہيں ڈھونڈے کي کوشش کي ? ايک طرف تو اس ذہنيت نے عورت کو گھرکي چارديواري کے امن وسکون سے باہر نکال کر فيکٹريوں اور کارخانوں ميں لاکھڑا کيا اور يوں افرادي قوت ميں اضافے کے ذريعے بے مثال معاشي فوائد حاصل کيے? دوسري طرف ميڈيا کي دنيا ميں عورت کے حسن و جمال کو اپنے ليے ”کميوڈيٹي “ کے طور پر استعمال کيا? دونوں راستوں کے ذريعے مغرب کے سرمايہ دارطبقے نے اپني مادي ترقي کو بام عروج تک پہنچاديا? اس تحيرخيز ترقي اور چکاند نے ديگر ممالک کو بھي اپني جانب راغب کيا? اور يوں چند ہي سالوں ميں مغرب کي يہ مادي ترقي اور سرمايہ دارانہ ذہنيت اپني تمام ترحشرسامانيوں سميت پوري دنيا ميں پھيل گئي عالمي تجارتي کمپنيوں نے پاکستان سميت ديگر ترقي پذير ممالک کي حکومتوں کو معاشي ترقي کا جھانسہ دے کر خواتين سے متعلق اپنے ايجنڈے کو بھرپور طاقت دي? اخلاقي و معاشرتي تباہي جيسے سنگين مسائل سے صرف نظرکرنے کا نتيجہ يہ ہوا کہ آج پاکستان سميت ديگر ممالک ميں سماجي‘ سياسي‘ معاشي ہرسطح پر خواتين کا استحصال عروج پرپہنچا ہوا دکھائي ديتا ہے? سرکاري و بين الاقوامي سرپرستي ميں ميڈيا جس طريقے سے خواتين کے کردار کي تذليل اور ان کي حيثيت کو مسخ کررہا ہے? اس نے خواتين کے ليے ہرسطح پرناخوشگوار ماحول پيدا کرديا ہے? اس ضمن ميں ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان کي محض يہ رپورٹ ہي آنکھيں کھول دينے کے ليے کافي ہے کہ ”خواتين کے ساتھ پيش آنے والے واقعات کے پيچھے کمزور عدالتي نظام‘ کرپٹ پوليس يا مجرموں کي سرکاري و سماجي سرپرستي سے زيادہ اصل وجہ ميڈيا کے ذريعے خواتين کي بے جانمود و نمائش اور ان کو”اشيائے تجارت“ کے طور پر پيش کيے جانے کي پاليسي ہي“? (سالانہ رپورٹ 2005ئ) اس رپورٹ سے با آساني اندازہ کيا جاسکتا ہے کہ خواتين کے ساتھ ہونے والے استحصال اور معاشرتي ناانصافيوں کي اہم وجہ ميڈيا کي غير اخلاقي پاليسي ہے اور اسي پاليسي کا نتيجہ ہے کہ خواتين کے حقيقي مسائل‘ جن ميں سب سے اہم عدم تحفظ کا احساس ہے‘ پس پشت ڈال ديے گئے ہيں اگرچہ حکومتي سطح پر خواتين کي فلاح و بہبود کے ضمن ميں بے شمار دعوے کيے جاتے رہے ہيں جن ميں سرفہرست پارليمنٹ ميں خواتين کي موثر نمائندگي اور حقوق نسواں پر مبني قوانين کي منظوري و نفاذ جيسے اقدامات شامل ہيں موجودہ حکومت بھي خواتين کي ترقي کو اپنے منشورکا اہم جزو قرار ديتي ہے? توجہ طلب امر يہ کہ موجودہ پارليمنٹ پہلي خاتون اسپيکر کے ساتھ ساتھ ملکي تاريخ ميں اب تک خواتين کي سب سے زيادہ نمائندگي کرنے والي پارليمنٹ ہے مگر اس کے باوجود ملک بھر ميں خواتين کے خلاف جبر و تشدد کے واقعات ميں روزبروز اضافہ ايک لمحہ فکريہ ہےعافيہ صديقي‘ تسليم سولنگي ارو ماريہ شاہ جيسے اندوہناک سانحات کے باوجود اس ضمن ميں کسي قسم کي عدم پيشرفت نہ صرف موجودہ خواتين ارکان پارليمنٹ کي کارکردگي پرسواليہ نشان ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ يہ احساس بھي پيدا ہوا ہے کہ حقوق نسواں کے قوانين اور پارليمنٹ ميں خواتين کي موجودگي جيسے اقدامات (جو در اصل ترقي نسواں کي مغربي تحريک سے مرعوبيت کے تحت عمل ميں لائے گئے ہيں) محض نمائشي اور مصنوعي ہيں اور يہ خواتين کو ان کا بنيادي حق‘ يعني معاشرتي احساس تحفظ‘ دينے ميں بھي ممدو و معاون ثابت نہيں ہوسکے.


امر واقعہ يہ ہے کہ مغرب کي تحريک برائے حقوق نسواں کے اثرات‘ جو پوري دنيا ميں ملاحظہ کيے جاسکتے ہيں‘ يہ حقيقت کھول دينے کے ليے کافي ہيں کہ يہ تحريک خواتين کو ان کاحقيقي معاشرتي مقام و مرتبہ دينے ميں نہ صرف يہ کہ نا کام ہے بلکہ اس نے آج کي عورت سے اس کي اصل حيثيت چھين کر اسے بيچ چوراہے ميں لاکھڑا کيا ہے? پاکستان سميت تمام تر اسلامي حکومتوں اور ديگر معاشرتي طبقات کو اس حقيقت کا ادراک کرلينا چاہيے کہ عورت کے اصل حقوق ‘ شخصي آزادي‘ حيثيت و مرتبے اور عفت و عصمت کا حقيقي محافظ مغربي نظام نہيں بلکہ وہ اسلامي نظام ہے جس نے 14 سو سال قبل بھي عورت کا دامن حقيقي احساس تحفظ‘ امن وسکون اور دائمي راحتوں سے بھرديا تھا اور آج بھي يہي نظام عورت کو اس کا اصل مرتبہ اورحقوق دينے کي مکمل اہليت اور صلاحيت رکھتا ہے? لہ?ذا يہ ضروري ہے کہ حقوق نسواں کے ليے اٹھائے جانے والے اقدامات مغربي ايجنڈے کے تحت کرنے کے بجائے اسلامي اقدار و روايات سرفہرست رکھ کرکيے جائيں? سب سے پہلے قدم کے طور پر ميڈيا کے ذريعے خواتين کے استحصال کي بيخ کني ہو? تعليم و صحت ‘ وراثت اور حق ملکيت جيسے ديگر حقوق جو اسلامي شريعت نے عورت کو عطاکيے في الواقع عورت کو يہ حقوق دے کر اس کي اہميت کا احترام کياجائے? محض اسي صورت ميں خواتين کے ساتھ ہونے والي معاشرتي ناانصافيوں‘ زيادتيوں‘ سماجي تعصبات اور مشکلات کاحل ممکن ہے.


المرسله : صبیحه سجاد رضوی کلکتوی

No comments:

Post a Comment